بجھتی ہوئی آنکھوں کا اکیلا وہ دیا تھا
بجھتی ہوئی آنکھوں کا اکیلا وہ دیا تھا
ہجراں کی کڑی شب میں اذیت سے لڑا تھا
رکتا ہی نہیں تجھ پہ نگاہوں کا تسلسل
کل شام ترے ہاتھ میں کنگن بھی نیا تھا
اک چشم توجہ سے ادھڑتا ہی گیا تھا
وہ زخم کہ جس کو بڑی محنت سے سیا تھا
برگد کے اسی پیڑ پہ اتریں گے پرندے
سیلاب زدہ گھر کے جو آنگن میں کھڑا تھا
درویش کی کٹیا کے یہ لاشے پہ بنی ہے
ویران شکستہ سی حویلی پہ لکھا تھا
تصویر میں اس کو ہی سر بام دکھایا
مزدور زمانے کے جو پاؤں میں پڑا تھا
وہ زخم جدائی کا بھلا کیسے دکھے گا
ملبہ جو مرے جسم کا اندر کو گرا تھا
بابرؔ ہو کہ بہکا ہوا جھونکا یا ستارہ
تیری ہی گلی میں ہمیں جاتا وہ ملا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.