بجھتی شمع کی صورت کیوں افسردہ کھڑے ہو کھڑکی میں
بجھتی شمع کی صورت کیوں افسردہ کھڑے ہو کھڑکی میں
دیکھو شام ہے کس درجہ دل کش اس دھوپ کی وردی میں
وہم و گماں کے صحراؤں میں پھول کھلے تری یادوں کے
اور چراغاں دور تلک ہے سانسوں کی اس وادی میں
قہر و غضب کے منبر پر ہاتھوں میں لیے کشکول وفا
جھانک رہا تھا سورج بھی کل غور سے ایک صراحی میں
دور کھڑا ہو کر میں اس لیے پہروں دیکھتا رہتا ہوں
قید بہت سی یادیں ہیں مری اس ویران حویلی میں
تہوں کی پیاس بھی سطح پر اب صاف دکھائی دیتی ہے
ڈھونڈ رہے ہیں جانے کیا یہ بادل نیلی چھتری میں
ایک ہے اندیشہ مجھ کو کہیں میرے مر جانے کے بعد
بیچ نہ دیں میرے گھر والے مری قیمتی غزلیں ردی میں
رنگ اور خوشبو کی مانند ہے میرا سراپا بھی صاحب
قید رکھے گا آخر کب تک وقت مجھے یوں مٹھی میں
بحر محبت کے ساحل کی سیر بہت کر لی ہم نے
آؤ ذرا اب ہم بھی دیکھیں بیٹھ کے پیار کی کشتی میں
حرص و ہوس کے سارے پجاری ایک جگہ ہیں آج جمع
وقت کی شاخ پہ شاید کوئی پھول کھلا ہے جلدی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.