برے لوگوں کی روحیں یوں فرشتہ کھینچ لیتا ہے
برے لوگوں کی روحیں یوں فرشتہ کھینچ لیتا ہے
کہ جیسے کوئی کانٹوں پر سے کپڑا کھینچ لیتا ہے
اسی ہمدرد پر لگتی ہے اکثر قتل کی تہمت
کہ جو مقتول کے سینے سے نیزہ کھینچ لیتا ہے
جسے اسکول کی ہلکی کتابیں بوجھ لگتی تھیں
وہ اب مجبور ہو کر بھاری رکشا کھینچ لیتا ہے
میں جب بھی کوششیں کرتا ہوں اونچائی پہ چڑھنے کی
مرا اپنا ہی کوئی پیر میرا کھینچ لیتا ہے
فن اشعار بھی اک طرح کی فوٹو گرافی ہے
سخنور شعر میں ہر غم کا نقشہ کھینچ لیتا ہے
مجھے دیدار سے بھی بڑھ کے آتا ہے مزہ اس میں
وہ مارے شرم کے جب رخ پہ پردہ کھینچ لیتا ہے
نبیلؔ اس شاعری کے شوق کو آسان مت سمجھو
رگوں سے یہ لہو کا قطرہ قطرہ کھینچ لیتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.