بت پرستی پہ جو اپنا دل ناشاد آیا
بت پرستی پہ جو اپنا دل ناشاد آیا
سنگریزوں میں نظر حسن خداداد آیا
میری در تک جو کبھی وہ ستم ایجاد کیا
پاؤں چوکھٹ پہ نہ رکھے تھے کہ گھر یاد آیا
عرش سے آ کے فرشتوں نے سنبھالا مجھ کو
گرتے گرتے جو ترا نام مجھے یاد آیا
آئینہ طاق سے اترا ہی خدا خیر کرے
ناز و انداز سکھانے انہیں استاد آیا
بعد مرنے کے لحد میں جو لگا ہونے عذاب
یاد کیا کیا نہ مجھے وہ ستم ایجاد آیا
تو اماں دہر میں الفت سے ہوا میں پیدا
عشق ہم راہ مرے صورت ہم زاد آیا
دل میں گو لاکھ تھے شکوے مگر ان کے آگے
ایسے کھوئے گئے کچھ بھی نہ ہمیں یاد آیا
بے ستوں پر جو کبھی جاؤں میں وہ عاشق ہوں
نقش شیریں سے صدا آئی کہ فرہاد آیا
اس قدر خوف اسیری ہے مرے گلشن میں
اپنے سائے کو سمجھتا ہوں کہ صیاد آیا
میری وحشت سے نہ ان کو کہیں سودا ہو جائے
پوچھتے پھرتے ہیں اک ایک سے فصاد آیا
قمریوں کے لیے سولی سے سوا سرو ہوا
سیر گلشن کو جو وہ غیرت شمشاد آیا
اوڑھ کر سرخ دوپٹہ مجھے مارا اس نے
بن کے مریخ مری قتل کو جلاد آیا
ارغواں زار چمن کھیت بنا کشتوں کا
آج گلزار میں ایسا کوئی جلاد آیا
اور تو کون مصیبت میں خبر لیتا ہے
جب کلیجہ بھی نہ منہ کو دم فریاد آیا
میری وحشت نے مرے گھر کو بنایا بازار
کبھی فصاد سدہارا کبھی حداد آیا
کیفؔ کا حال عجب تھا غم تنہائی سے
بچ گئے جان جو اس دم وہ پری زاد آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.