بوڑھے برگد پہ شام ہو گئی ہے
بوڑھے برگد پہ شام ہو گئی ہے
ایک دنیا تمام ہو گئی ہے
پڑ گیا ہے اداسیوں کا رواج
جس کی خلقت غلام ہو گئی ہے
اس گلے کے بٹن کھلے دو تین
روشنی بے نیام ہو گئی ہے
ہم رویوں پہ کام کر نہ سکے
آج تخریب عام ہو گئی ہے
دن بتایا تھا فکر فردا میں
رات ماضی کے نام ہو گئی ہے
اس گلی میں قیام ہے میرا
بے گھری بے مقام ہو گئی ہے
اس کے چھونے سے بھی ہرا نہ ہوا
یہ خزانی دوام ہو گئی ہے
آب زاروں پہ جم گئی کائی
زندگی تشنہ کام ہو گئی ہے
سانس آہستہ چل رہی ہے منیرؔ
موت کیوں تیز گام ہو گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.