چاہا یہی تھا میرؔ کا آزار کھینچتی
چاہا یہی تھا میرؔ کا آزار کھینچتی
صحرا میں اپنے واسطے دیوار کھینچتی
آیا تھا میری اور وہ پیاسے لبوں کے ساتھ
بس میں کہاں تھا میرے کہ انکار کھینچتی
مجھ سے چھڑا کے ہاتھ وہ جانے لگا تھا کیوں
اک بار گر وہ کہتا تو سو بار کھینچتی
کرتا اگر سوال عطائی وصال کا
تشنہ سی آرزوئے طلب گار کھینچتی
دل میں چھپا کے بیٹھ گیا موسم طرب
کیسے میں اپنا جذبۂ اظہار کھینچتی
رکھا ہے اس نے یاد مجھے خواب کی طرح
اے کاش میں بھی عرصۂ اذکار کھینچتی
وہ بھی گلوں کی خوشبوؤں کے سنگ کھیلتا
میں بھی بدن کی شاخ ثمر بار کھینچتی
جادو تھا اس کے حسن طلب کے حصار میں
ماہینؔ کیسے شدت اصرار کھینچتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.