چاہے ہمارا ذکر کسی بھی زباں میں ہو
چاہے ہمارا ذکر کسی بھی زباں میں ہو
کچھ حسرتوں کی بات بھی رسم بیاں میں ہو
آئے تو اس وقار سے اب کے عذاب ہجر
شرمندہ یہ بہار بھی اب کے خزاں میں ہو
رکھا ہے زندگی کو بھی ہر حال میں عزیز
جب کہ عذاب زیست بھی اپنے گماں میں ہو
نکلوں تری تلاش میں جب آسمان پر
صدمہ مرے خیال کو دونوں جہاں میں ہو
رسم جنوں کا باب ہے اول و آخری
لکھا نصاب دل تو کسی بھی زباں میں ہو
یہ تیرا حسن ظن تھا کہ دل کام آ گیا
ورنہ تو اس کا ذکر بھی کار زیاں میں ہو
کچھ لوگ تھے سفر میں مگر ہم زباں نہ تھے
ہے لطف گفتگو کا جو اپنی زباں میں ہو
بیٹھا ہوں دور سائے سے اس واسطے سعیدؔ
آسودگی سفر کی اسی امتحاں میں ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.