چاہے کچھ ہو زیر احساں اپنی ناداری نہ رکھ
چاہے کچھ ہو زیر احساں اپنی ناداری نہ رکھ
پتھروں سے بھر کے یہ شیشے کی الماری نہ رکھ
جنگ تو جیتے کہ ہارے یہ الگ اک بات ہے
ذہن و دل پر خوف دشمن کا مگر طاری نہ رکھ
آڑی ترچھی کچھ لکیریں ہی ملیں گی شام تک
شہر کے چوراہے پر تو اپنی فن کاری نہ رکھ
یہ بزرگوں کی روا داری کے پژمردہ گلاب
آبیاری چاہتے ہیں ان میں چنگاری نہ رکھ
ہے ترے انصاف کا تیری ترازو سے وقار
باٹ ہلکے ہوں تو آگے چیز بھی بھاری نہ رکھ
زندگی کے آئینے کی آب ہے حامدؔ خودی
اپنی سانسوں سے جدا احساس خود داری نہ رکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.