چاہے مٹی کا دیا تھا یہ جلائے رکھا
چاہے مٹی کا دیا تھا یہ جلائے رکھا
خود سے جو عہد کیا تھا سو نبھائے رکھا
میری وابستگیٔ باغ ہے ایماں میرا
بے ثمر شاخ کو سینے سے لگائے رکھا
قد و قامت کا تعین سر صحرا کیسا
پھر بھی سایوں ہی کو معیار بنائے رکھا
میں نے تعویذ سمجھ کر جسے پہنا تھا کبھی
جانے اس نقش نے کیوں مجھ کو ڈرائے رکھا
نارسائی کے سمندر کی صدائیں سن کر
اور اک نقش نیا ہم نے بنائے رکھا
حرف کی دھوپ اگر صبح تمازت نہ بنی
اپنے ہی جسم کو دیوار بنائے رکھا
میں کہاں اور کہاں شہر قصیدہ یارو
صبرؔ کا نوحہ مگر لب پہ سجائے رکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.