چالیس سال مسلسل ہو گئے
اب میرے بازو شل ہو گئے
میں بھی ذرا سستا لوں لیکن
باغ و بیاباں جل تھل ہو گئے
ہجر کی راتوں کے سناٹے
اس کی آنکھ کا کاجل ہو گئے
اس کے گیسو کے سائے میں
ازل ابد پل دو پل ہو گئے
خوابوں کے سب رنگ بکھر کر
اس کی چھت کے بادل ہو گئے
سر کیا پھوڑنا دیواروں سے
سب دروازے مقفل ہو گئے
کھل کر سامنے آ گئے قاتل
شہر کے کوچے مقتل ہو گئے
آنکھ اٹھا کر دیکھا اس نے
اور سارے عقدے حل ہو گئے
کچھ بھی سمجھ میں زیبؔ نہ آیا
سوچتے سوچتے پاگل ہو گئے
- کتاب : دھیمی آنچ کا ستارہ (Pg. 62)
- Author : زیب غوری
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.