چاند اپنا سفر ختم کرتا رہا شمع جلتی رہی رات ڈھلتی رہی
چاند اپنا سفر ختم کرتا رہا شمع جلتی رہی رات ڈھلتی رہی
ہم تری راہ چپ چاپ دیکھا کئے یہ کہانی اسی طرح چلتی رہی
بے قراری شب ہجر کی کیا کہوں یاد تیری کلیجا مسلتی رہی
چین دل سے نگاہیں چراتا رہا نیند آنکھوں میں کروٹ بدلتی رہی
طاقت ضبط کی کوششیں اک طرف سرد آہوں کا زور اور شور اک طرف
آنسو آنکھوں سے رک رک کے بہتے رہے برف جمتی رہی اور پگھلتی رہی
ہم تری یاد میں اس طرح محو تھے کچھ خبر ہی نہ ماحول کی ہو سکی
غم کی ناگن کلیجے پہ بیٹھی ہوئی منہ سے شعلے پہ شعلے اگلتی رہی
اف رے پاس محبت کی مجبوریاں عمر امید ہی میں بسر ہو گئی
صبح ہوتی رہی شام ہوتی رہی بات وعدوں ہی وعدوں پہ ٹلتی رہی
باوجودیکہ مخفی کسی سے نہ تھا کار گاہ جہاں جائے ماندن نہیں
حکم فطرت کی تعمیل ہوتی رہی سانچہ بنتا رہا شکل ڈھلتی رہی
ہجو مے منبر خشت مے خانہ پر اس پہ طرہ یہ ساقی کے ہوتے ہوئے
مفت کا شغل رندوں کے ہاتھ آ گیا خوب واعظ کی پگڑی اچھلتی رہی
برق حرماں گری اور گرتی رہی بال بیکا نہ امید کا کر سکی
ولولوں کے پرخچے اڑے جی بجھا پر تمنا کی قندیل جلتی رہی
اف وہ مبہم سے تیور اچٹتی نظر ہم دوراہے پہ وہم و یقیں کے رہے
شمع امید طرفہ تماشہ بنی خود ہی بجھتی رہی خود ہی جلتی رہی
وہ محبت کی صہبائے دو آتشہ میرے ہم مشربو میکدے میں کہاں
ان نگاہوں کا کیف شبانہ لئے خلوت بے خلل میں جو ڈھلتی رہی
غنچہ و گل کا جب تک زمانہ رہا آصفؔ اپنی طبیعت رہی جوش پر
کیف عشرت فضا سے ٹپکتا رہا عیش کی مے زمیں سے ابلتی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.