چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے
چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے
کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے
مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں میری آنکھیں
میں نے کچھ رنگ چنے تھے ترے شیرازے سے
صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے
اب تو پہچانتا ہوں خود کو بھی اندازے سے
میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں
کیا ڈراتی ہیں ہوائیں مجھے خمیازے سے
اپنے چہرے پہ نہ اوروں کے خد و خال سجا
روپ آتا ہے کہیں اترے ہوئے غازے سے
جھوٹی عظمت کی پجاری ہے مظفرؔ دنیا
پستہ قد لوگ بھی گزریں بڑے دروازے سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.