چاروں جانب پاگل خانے لگتے ہیں
چاروں جانب پاگل خانے لگتے ہیں
موسم ایسے ہوش اڑانے لگتے ہیں
ملبہ گرنے لگتا ہے سب کمرے کا
جب تیری تصویر جلانے لگتے ہیں
گھبرا کے اس دور کے وحشی انساں سے
دیواروں کو راز بتانے لگتے ہیں
آنکھ اٹھا کر جب بھی دیکھوں پیڑوں کو
مجھ کو میرے دوست پرانے لگتے ہیں
ذہن میں ماضی جب بھی گھومنے لگتا ہے
آنکھ میں کتنے آنسو آنے لگتے ہیں
دل کے ہاتھوں ہو کے ہم مجبور سدا
ارمانوں کی لاش اٹھانے لگتے ہیں
پتھر جیسی دنیا ہے خود غرضی ہے
اس کو کیوں کر درد سنانے لگتے ہیں
ساتھ مرے وہ مل کر چاند ستارے بھی
ہجر میں تیرے نیر بہانے لگتے ہیں
یار نبیلؔ انہیں میں جتنا بھولتا ہوں
مجھ کو یاد وہ اتنا آنے لگتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.