چاروں طرف بلند نشاں تیرگی کا تھا
چاروں طرف بلند نشاں تیرگی کا تھا
رکھا ہوا فصیل پہ سر روشنی کا تھا
سر پر مرے عذاب زمانہ نہ تھا کوئی
مجھ پر تو اک عذاب مری آگہی کا تھا
میری ہی طرح ٹوٹ کے وہ بھی بکھر گیا
میری طرح گماں اسے شیشہ گری کا تھا
کیا سوچ کر تم ایسے سفر پر نکل پڑے
امکاں نہ جس سفر سے کوئی واپسی کا تھا
آیا تھا لوٹنے مرا ہمزاد بھی مجھے
کس کو خیال لوٹ میں ہمسائیگی کا تھا
رنگوں کے ازدحام میں سب رنگ عام تھے
ممتاز تھا تو رنگ تری سادگی کا تھا
منزل بہ منزل اس کے بچھڑنے کا غم ہے کیوں
رستے میں جس کا ساتھ گھڑی دو گھڑی کا تھا
بڑھ کر وہاں بھی شب نے سیاہی انڈیل دی
ہلکا سا شائبہ بھی جہاں روشنی کا تھا
میری کتاب شعر میں سادہ جو رہ گیا
محسنؔ وہی ورق تو مری شاعری میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.