چلی جو خود سے کبھی ہو کے بد گمان ہوا
چلی جو خود سے کبھی ہو کے بد گمان ہوا
بکھر کے رہ گئی گلیوں کے درمیان ہوا
عجب نہیں کہ دئے سے شکست کھا کے بھی
چراغ پا نہ ہوئی اب کے بد زبان ہوا
گزشتہ رات کی دہلیز پر سسکتے ہوئے
سنا رہی تھی ہواؤں کو داستان ہوا
ہوائیں باندھ رہا تھا جو ایک مدت سے
پھر ایک روز وہی ہو گیا مکان ہوا
نہ جانے دھارے کسی وقت روپ آندھی کا
نشان چھوڑ نہ جائے یہ بے نشان ہوا
اب ایسا لگتا ہے ساحل سے آ لگیں گے ہم
اڑا کے لے گئی اپنا تو بادبان ہوا
مجھے یقین ہے ایک روز میرے آنگن میں
بکھیر جائے گی خوشبوئے زعفران ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.