چلو غزل میں کچھ ایسا بھی آزمایا جائے
چلو غزل میں کچھ ایسا بھی آزمایا جائے
ردیف خود کو اسے قافیہ بنایا جائے
وہ کہہ رہی تھی ہوا بن کے شب میں آؤں گی
سو اب چراغ کی صورت بدن جلایا جائے
جنون ایذا پسندی تو ہے طبیعت میں
ہمارے زخم پہ پھر سے نمک لگایا جائے
وہ خشک ہونٹوں پہ میرے سوال کرتی ہے
تو کیا لبوں کا تقاضا اسے بتایا جائے
جو دل پہ ہو گیا تحریر اس کا کیا ہوگا
مگر وہ کہتا ہے ہر لفظ اب مٹایا جائے
بہت دنوں سے نشہ میں ہوں ہوش کی خاطر
پھر آج شام کو پانی میں کچھ ملایا جائے
مشاعرے کی ہو فہرست جاری جو دلبرؔ
تو اب کے شاہ تغزل کو بھی بلایا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.