چند لمحوں کی زندگی ہے ابھی
چند لمحوں کی زندگی ہے ابھی
ان چراغوں میں روشنی ہے ابھی
اپنی معصوم سی تمنا کے
خون سے اک غزل لکھی ہے ابھی
ایک مدت سے ہے شریک سفر
زندگی پھر بھی اجنبی ہے ابھی
خشک موسم کی دل لگی کے لئے
چشم گل کچھ تو شبنمی ہے ابھی
راکھ سے جسم میں کہیں نہ کہیں
ایک چنگاری سی دبی ہے ابھی
اپنی تہذیب کے کچلنے کو
منتظر بیسویں صدی ہے ابھی
دل کی ویران رہ گزاروں پر
کوئی آہٹ سی آ رہی ہے ابھی
سب تو عرفانؔ لٹ چکا لیکن
ایک سرمایۂ خودی ہے ابھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.