چند یادیں ہیں بام و در کے سوا
چند یادیں ہیں بام و در کے سوا
ذہن میں کچھ نہیں کھنڈر کے سوا
سر بہت تھے جہان فانی میں
در نہ تھا کوئی تیرے در کے سوا
سب سقیفہ میں نذر کر آئے
اپنی تاریخ کو نظر کے سوا
سر میں سودا تھا ٹک کے بیٹھ رہیں
پیر میں کچھ نہ تھا سفر کے سوا
ایک شہر خطر سے آگے بھی
کچھ نہ تھا شہر پر خطر کے سوا
ہر بڑے شہر کے مکانوں میں
آرزو کچھ نہیں ہے گھر کے سوا
چلئے سب ترک کر دیا ہم نے
اک تمنائے مختصر کے سوا
میں بھی ہوں آب و خاک کا پتلا
کیا ہے دنیا بھی بحر و بر کے سوا
تم سمجھتے تھے قافلہ جس کو
بس وہاں ہم تھے دیدہ ور کے سوا
انجمن کا گماں تھا جس پہ وہاں
تھا وہ کون ایک دو نفر کے سوا
آنکھ کے خول میں سماتا کیا
ایک انسان کی نظر کے سوا
گفتگو دیر تک رہی لیکن
کچھ نہ تھی بات اگر مگر کے سوا
وہاں انبوہ غم میں کون نہ تھا
سب ہی تھے ایک ہم سفر کے سوا
یوں تو منزل بھی تھی ارادہ بھی
سامنے سب تھا اک ڈگر کے سوا
راہرو سب قدم قدم چھوٹے
نہیں اب کوئی راہبر کے سوا
میں ہوں باقی لٹے ہوئے گھر میں
کیا ملا ان کو مال و زر کے سوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.