چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی
چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی
وہ ساتھ ساتھ ہے اور بیکلی نہیں جاتی
شباب رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر
یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی
عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات
کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی
چمن کو چاروں طرف گھیر کر نہیں رکھنا
صبا گلوں کی طرف کب چھپی نہیں جاتی
چلو اسی سے کریں بات چارہ گر تو ہے
وہ جس سے بات کسی کی سنی نہیں جاتی
متاع درد نمو کے سفر میں ہے شامل
کلی بہار میں ویسے جلی نہیں جاتی
فشار وقت میں نوک قلم ہوئی لرزاں
لہو کے شور میں دل کی کہی نہیں جاتی
تمام شہر رعونت کی گرد میں ملفوف
اور ایک ہم ہیں کہ وارفتگی نہیں جاتی
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 385)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.