چراغ دوش ہوا پہ روشن کھڑے ہوئے تھے
چراغ دوش ہوا پہ روشن کھڑے ہوئے تھے
کمال یہ ہے قضا کے سر پر چڑھے ہوئے تھے
فلک کے دامن پہ جو ستارے چمک رہے ہیں
ہماری چوکھٹ پہ سر بہ سجدہ پڑے ہوئے تھے
نئے شجر کھلکھلا رہے تھے خزاں کی رت میں
قدیمی پیڑوں کے تازہ پتے جھڑے ہوئے تھے
کسی کی غربت کا نور رخ سے چھلک رہا تھا
کسی کی بالی میں ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے
وہاں پہ صبر و رضا نے خیمے لگائے اپنے
جہاں پہ ظلم و ستم کے پرچم گڑے ہوئے تھے
ہمارے زخموں سے مکھیوں نے مزے اٹھائے
کچھ عہد ماضی کے گھاؤ اب تک سڑے ہوئے تھے
مہاجروں کو پتا ہے اپنے وطن کی قیمت
یہ وہ پرندے ہیں جو یہاں پر بڑے ہوئے تھے
اسی نے پہلا قدم بغاوت کی سمت رکھا
وہ جس کی الفت کے تیر دل میں گڑے ہوئے تھے
اجل سے ملنے کی آرزو میں جناب محورؔ
شراب خانے میں زندگی سے لڑے ہوئے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.