چراغ سحری ہوں لیکن ابھی بجھا بھی نہیں
چراغ سحری ہوں لیکن ابھی بجھا بھی نہیں
یہ کیسے کہہ دوں کہ اطراف میں ہوا بھی نہیں
یہ اور بات کہ ملنے میں احتیاط کرے
عجیب شخص ہے ظاہر میں وہ خفا بھی نہیں
زباں میں چاشنی پائی ہے ایسی ظالم نے
وہ سخت بات بھی کہہ دے لگے برا بھی نہیں
وہ ملنے کو تو ہمیشہ ہی مجھ سے ملتا ہے
غرور حسن تو دیکھو کہ بولتا بھی نہیں
شب فراق گزاروں میں کس طرح اپنی
فلک پہ چاند ستاروں کا قافلہ بھی نہیں
جھنجھوڑتا ہے مجھے رات دن ضمیر مرا
مرے گناہ کی دنیا میں کیا سزا بھی نہیں
میں جانتا ہوں کہ لہریں مجھے ڈبو دیں گی
سوائے اس کے کوئی اور آسرا بھی نہیں
ہر ایک شخص کو ایسا کہاں سلیقہ ملا
وہ بات کرتا ہے ایسی کہ کچھ کہا بھی نہیں
میں چل رہا ہوں سعیدؔ ایسے راستے پہ جہاں
سوائے دھوپ کے سر پر کہیں گھٹا بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.