چراغ زیست مدھم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
چراغ زیست مدھم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
ابھی امید میں دم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
کبھی تو وصل کی چارہ گری بھی کام آئے گی
ابھی تو ہجر مرہم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
ابھی تو سامنے بیٹھی ہوں بالکل سامنے تیرے
ابھی کس بات کا غم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
ابھی جو فکر ہے تیری اسے ثابت تو ہونے دے
ابھی یاروں میں دم خم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
سرابوں سے ابھی امید کے جھرنے نہیں پھوٹے
عجب تشنہ سا عالم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
بہاریں ہوں نہ ہوں پھر بھی چمن خالی نہیں رہتا
یہ موسم غم کا موسم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
ابھی منظر بدلتے ہی بدل جائیں گے سب چہرے
بچھڑتے وقت کا غم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
ابھی اے بلبلو گاؤ نہ نغمے تم بہاروں کے
ابھی تو لطف پیہم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.