چراغ گل تھے زمیں کی گردش ٹھہر رہی تھی
چراغ گل تھے زمیں کی گردش ٹھہر رہی تھی
میں تیرے ہم راہ باغ جاں سے گزر رہی تھی
طلوع ہو کر تری جبیں نے کہا کہ آؤ
میں پاؤں رکھتے ہوئے ستاروں پہ ڈر رہی تھی
تمہارے بازو پہ سبز تعویذ کھل رہا تھا
مری محبت پہ آیت دل اتر رہی تھی
کسے خبر تھی یہ اہتمام وصال نو ہے
میں ہجر کی شب شکستگی میں سنور رہی تھی
کہ روشنی کا رسیلا رس تھے تمام منظر
میں اپنی آنکھیں تمہاری آنکھوں سے بھر رہی تھی
ابھی ابھی تو دھنک کے نم نے چھوا تھا مجھ کو
ابھی ابھی تو میں نیند میں بات کر رہی تھی
وہ عشق کا آخری پڑاؤ وہ دل کا تھکنا
میں ہجر زادی تھی اور خود سے گزر رہی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.