چشم حیراں کو یوں ہی محو نظر چھوڑ گئے
چشم حیراں کو یوں ہی محو نظر چھوڑ گئے
دل میں لہرائے خیالوں میں شرر چھوڑ گئے
جن کے سائے میں کبھی بیٹھ کے سستایا تھا
وہ گھنے پیڑ مری راہگزر چھوڑ گئے
منتظر ان کے لیے ہے کسی گرداب کی آنکھ
خود سفینوں کو جو ہنگام خطر چھوڑ گئے
قافلے نور کے اترے نہ کسی منزل پر
شب کے نم دیدہ کناروں پہ سحر چھوڑ گئے
خیرگی ہے کہ اترتی ہی نہیں آنکھوں سے
کن اندھیروں میں ہمیں شمس و قمر چھوڑ گئے
لے گئے لوگ جبینوں میں عبادت کا غرور
کتنے سجدوں کو مگر خاک بسر چھوڑ گئے
آئے آنکھوں میں نہ دم بھر کو سلگتے آنسو
پردۂ چشم پہ اک نقش مگر چھوڑ گئے
رات کے عکس جو شبنم میں اترنے آئے
کتنے پھولوں میں صمدؔ داغ جگر چھوڑ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.