چشم تر ہوتی ہے جب ذکر ترا ہوتا ہے
چشم تر ہوتی ہے جب ذکر ترا ہوتا ہے
ہوک اٹھتی ہے تو کچھ درد سوا ہوتا ہے
قطرہ دریا سے جدا ہو کے ہوا ہوتا ہے
ہجر کی تاب نہ لایا وہ فنا ہوتا ہے
راس آیا نہ کبھی ہم کو طبیبوں کا علاج
جتنی پیتا ہوں دوا درد سوا ہوتا ہے
جب ہے آغاز محبت میں ہی ایسی حالت
حال اب دیکھیے انجام میں کیا ہوتا ہے
تیری بھی چال سے اٹھتے ہیں ہزاروں فتنے
میرے نالوں سے اگر حشر بپا ہوتا ہے
بے بسی پر مجھے رونا بھی ندامت بھی ہے
کس برے وقت میں ظالم تو جدا ہوتا ہے
بے وفاؤں کی نظر کچھ میری تقدیر نہیں
وہ نظر پھیر لیں سو مرتبہ کیا ہوتا ہے
مانا یکتائے زمانہ ہو مگر کیوں صاحب
حسن ہونے سے بھلا گوئی خدا ہوتا ہے
کیوں خفا ہو گئے اک ذکر ستم ہی تو تھا
دوستوں ہی میں تو اے جان گلہ ہوتا ہے
ایسی ٹھنڈی ہوا برسات کی رت دیکھ ذرا
ایسی حالت میں کہاں کوئی جدا ہوتا ہے
راز کیا ہے جو انہیں آج محبت اٹھی
ہے تو کچھ بات جو یہ عذر جفا ہوتا ہے
حشر میں وعدۂ دیدار تو کچھ ٹھیک نہیں
آج دکھلانے میں صورت انہیں کیا ہوتا ہے
رند مے نوش ہے دیوانؔ خدا کا بندہ
مت برا کہہ اسے کیوں مفت برا ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.