چشمہ کبھی ندی کبھی دریا مرا دریا
چشمہ کبھی ندی کبھی دریا مرا دریا
چلتا رہا بہروپ بدلتا مرا دریا
بے چین در ہجر میں ہر بحر کی بانہیں
اور حسرت پا بوسیٔ صحرا مرا دریا
بہتا ہے کسی منظر نادیدہ کی دھن میں
بیگانۂ ہر چشم شناسا مرا دریا
ہر موج ہے آئینۂ گرداب شب و روز
ہر عکس میں رکھتا ہے زمانہ مرا دریا
مجھ پر بھی ہویدا نہیں ہوتی مری خواہش
سیراب مری موج ہے پیاسا مرا دریا
ندی مرے سینے میں مچلتی تری ندی
دریا تری آنکھوں میں چمکتا ترا دریا
خود اصل تمنا ہوں کروں کس کی تمنا
میرے ہی سمندر میں گرے گا مرا دریا
لگتا ہے کہیں اور بھی میں بہتا رہا ہوں
پہلے بھی کوئی تھی مری دنیا مرا دریا
ندی کی ہر اک لہر کے لب پر ہے یہ نغمہ
دریا مرا دریا مرا دریا مرا دریا
ہر منزل تہذیب ہے تخریب کی زد میں
بہتا ہے بناتا ہوا رستا مرا دریا
بے سبزہ و گل ٹھہری مری خاک تن خواب
میری ہی زمیں سے نہیں گزرا مرا دریا
اے خاک زمیں تو بھی ہے زندہ مرے دم سے
دل بن کے ترے جسم میں دھڑکا مرا دریا
بادل کبھی بارش کبھی شعلہ تری باتیں
بے کل کبھی جل تھل کبھی جلتا مرا دریا
کس کام کے میرے لیے صدیوں کے سمندر
اے ریت کہاں ہے مرا لمحہ مرا دریا
جاری ہے تحیر کے کناروں کا کٹاؤ
اب تک کہیں جا کر نہیں اترا مرا دریا
اے کاش کہ ہر لہر کو پر لگ گئے ہوتے
چھوتا تری پلکوں کا ستارا مرا دریا
صحرا ہے اسی پیاس سے سیراب ابھی تک
جس شام لہو رنگ ہوا تھا مرا دریا
ارمانؔ میں اک زخم دل موجۂ جو ہوں
لیکن ہے یہی درد تمنا مرا دریا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.