چھا گیا میرے مقدر پہ اندھیرا اے دوست
چھا گیا میرے مقدر پہ اندھیرا اے دوست
تو نے شانوں پہ جو گیسو کو بکھیرا اے دوست
یوں شب غم میں تری یاد دبے پاؤں آئی
تیرگی سے ہو نمو جیسے سویرا اے دوست
میں تو خاموش تھا چپ رہ نہ سکے زخم کے لب
میں نے سمجھا ہے سدا تجھ کو مسیحا اے دوست
ایک شبنم ہی جہاں رات گئے روتی ہے
دل ہوا میرا مثال گل صحرا اے دوست
وہ نشاں اہل خرد کہتے ہیں جس کو منزل
نقش پا سے ہے جنوں کے وہ ہویدا اے دوست
کشتیٔ زیست کو حاصل ہوئی گرداب عمیق
بحر الفت میں ملا کس کو کنارا اے دوست
تیرے گیسو مری الجھن کے خطا وار نہیں
تو نے ان کو تو کئی بار سنوارا اے دوست
لٹ گیا اب تو متاع غم تنہائی بھی
کس ادا سے تری یادوں نے پکارا اے دوست
پھر یہ چرچا ہے وہ آئیں گے سر بزم وحیدؔ
چھٹ نہ جائے کہیں دامان شکیبا اے دوست
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.