چھلک رہی ہیں جو آج آنکھیں دکھوں کا اتنا رساو کیوں ہے
چھلک رہی ہیں جو آج آنکھیں دکھوں کا اتنا رساو کیوں ہے
میں اپنے اشکوں سے پوچھتا ہوں غموں کو مجھ سے لگاؤ کیوں ہے
میں اپنے لوگوں کے آگے آ کر اکیلے دنیا سے لڑ رہا تھا
یہ میرا سینہ ہے چھلنی لیکن کمر پہ گہرے یہ گھاؤ کیوں ہے
جو دل میں آیا اٹھا دی انگلی مجھے ہی مجرم بنا کے مارا
سزا بھی منسوب کر چکے جب تو پیروی کا دباؤ کیوں ہے
ہمیں پتہ ہے گھنے اندھیروں میں گھر گئی ہیں ہماری راہیں
اگر یہ سچ ہے ہمارے دل میں یہ روشنی کا الاؤ کیوں ہے
رواج و رسموں سے گر لڑوں گا لڑے گی مجھ سے تمام دنیا
میں الٹے دھاروں میں تیرتا ہوں مگر یہ الٹا بہاؤ کیوں ہے
مری ہے لہریں مرے تھپیڑے مرے ہے طوفاں مرے تلاطم
میں جب سے نکلا ہوں ناؤ لے کر بھنور میں میری یہ ناؤ کیوں ہے
پرائے اپنے سبھی ہیں شامل مری تباہی کے وسوسوں میں
جب اپنے ہی چال چل رہے ہیں تو اپنوں کا یہ بناؤ کیوں ہے
تمام شکلوں کو اپنی کہہ کر ہزاروں کردار کر چکا ہوں
میں جس کہانی میں جی رہا ہوں اسی میں اتنے گھماؤ کیوں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.