چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے
چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے
ہمارے سامنے ساقی بہ ساغر جم آئے
فروغ آتش گل ہی چمن کی ٹھنڈک ہے
سلگتی چیختی راتوں کو بھی تو شبنم آئے
بس ایک ہم ہی لیے جائیں درس عجز و نیاز
کبھی تو اکڑی ہوئی گردنوں میں بھی خم آئے
جو کارواں میں رہے میر کارواں کے قریب
نہ جانے کیوں وہ پلٹ آئے اور برہم آئے
نگار صبح سے پوچھیں گے شب گزرنے دو
کی ظلمتوں سے الجھ کر وہ آئی یا ہم آئے
عجیب بات ہے کیچڑ میں لہلہائے کنول
پھٹے پرانے سے جسموں پہ سج کے ریشم آئے
مسیح کون بنے سارے ہاتھ آلودہ
لہولہان ہے دھرتی کہاں سے مرہم آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.