چھیڑا ہی کیوں ہوائے رہ کوئے یار نے
چھیڑا ہی کیوں ہوائے رہ کوئے یار نے
اندھیر کر دیا مری مشت غبار نے
اک اخگر جمال فروزاں بہ شکل دل
پھینکا ادھر بھی حسن تجلی نثار نے
افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن
ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے
اس دل کو شوق دید میں تڑپا کے کر دیا
کیا استوار وعدۂ نا استوار نے
جلوے کی بھیک دے کے وہ ہٹنے لگے تھے خود
دامن پکڑ لیا نگہ اعتبار نے
گیسو غبار راہ تمنا سے اٹ نہ جائیں
صحرا میں آپ نکلے ہیں ہم کو پکارنے
مجھ کو چنا ہے بہر ستم ہائے التفات
چشم جفا شعار و وفا اعتبار نے
بخشی ہیں اس خودی کو پئے امتحان ظرف
پروردگاریاں مرے پروردگار نے
کب سے کیا ہے باندھ کے احرام بے خودی
میرا طواف گردش لیل و نہار نے
ہمت پہ میری پیار سے امڈا ہے قلب بحر
دھوئے ہیں پاؤں گریۂ ابر بہار نے
صحن مجاز میں بہ ہزاراں ہزار ناز
کھیلی ہے مجھ سے آنکھ مچولی بہار نے
دی ہے نظر کو دعوت بوس و مس و کنار
کلیوں کے حسن پاک گنہ انتظار نے
چندیں ہزار عالم آشفتگی بہ دوش
اترا ہے ناز خود مرے گیسو سنوارنے
اس جام دل کو اپنی ہتھیلی پہ لے کے خود
چھلکا دیا ہے ساقیٔ کوثر نثار نے
رشک دوئی سے وسعت آغوش کر کے تنگ
بھینچا ہے مجھ کو وحدت کثرت شکار نے
جلوؤں نے رقص ناز کیا ہے مرے حضور
پردے اٹھا اٹھا دئے ہیں پردہ دار نے
آغوش چون و چند سے جھنجھلا کے ایک بار
چھینا مجھے ہمیشگیٔ بے کنار نے
میں کافر مجاز پرست حق آشنا
سمجھا کہاں کہاں سے صدا دی ہے یار نے
دیوانہ وار کفر کو ایماں کئے ہوئے
دوڑا تو ساتھ چھوڑ دیا اعتبار نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.