چھین کر کوئی سکوں بس دے گیا ہے اضطراب
چھین کر کوئی سکوں بس دے گیا ہے اضطراب
جانے کیسے ربط کی یہ ابتدا ہے اضطراب
ہر گھڑی مر کر گزاریں سانس اٹکی ہی رہے
جیتے جی مرنے کے جیسی ہی سزا ہے اضطراب
منزلوں کے بھی نشاں مبہم ہی کرتا جائے گا
بس مسلسل اک سفر ہے راستہ ہے اضطراب
کھنڈروں کی یا بیاباں کی طرف لے جائے جو
ایسی بھٹکاتی ہوئی سی اک صدا ہے اضطراب
شادمانی باغ کی تو ہو گئی مسمار سب
پھول تتلی اور غنچوں میں بچا ہے اضطراب
چاند تارے پھول خوشبو یہ گماں تھے عشق میں
اک کھلا حاصل ہوا اور اک ملا ہے اضطراب
کیسے کہہ دوں اس جہاں میں کوئی بھی میرا نہیں
اجنبی ہر شے ہے چاہے آشنا ہے اضطراب
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.