چھپا ہوا تھا مگر آشکار ہونا پڑا
چھپا ہوا تھا مگر آشکار ہونا پڑا
یہ جنگ جیت کے مجھ کو فرار ہونا پڑا
سواری کوئی میسر تھی کب سفر کے لیے
سو اپنے سر پہ ہی مجھ کو سوار ہونا پڑا
یہ سوچتا ہوں کہیں اس کی وجہ میں تو نہیں
یہ در بدر جو مجھے بار بار ہونا پڑا
شدید چوٹ سے آنکھیں پھٹی رہیں میری
اسی لیے مجھے زندہ شمار ہونا پڑا
وہ اک خوشی جو اکیلی بھٹکتی پھر رہی تھی
غموں کے ساتھ اسے ہم کنار ہونا پڑا
یہ دیس بھی مجھے پردیس کی طرح ملا ہے
مجھے وطن میں غریب الدیار ہونا پڑا
کیا ہے اندھا ترے دن کی روشنی نے مجھے
مرے وجود کو اندر سے غار ہونا پڑا
یہ عمر کم تھی تری راہ دیکھنے کے لیے
اسی لیے تو ہمیں شرمسار ہونا پڑا
اس آئنہ نے مجھے عکس میں چھپا لیا تھا
سو آئنہ کے مجھے آر پار ہونا پڑا
جب اس قطار کے اگلے سرے پہ پہنچ گیا
مجھے قطار سے پھر بے قطار ہونا پڑا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.