چھٹ گئیں نبضیں رکی سانسیں نظر پتھرا گئی
چھٹ گئیں نبضیں رکی سانسیں نظر پتھرا گئی
موت کیوں کہئے اسے بیمار کو نیند آ گئی
در حقیقت آپ تھے یا آپ کا عکس جمیل
واقعی میری نظر کیا آج دھوکا کھا گئی
میں نے چاہا تھا کہ پھولوں سے بسا لوں پیرہن
بوئے گل بھی میرے دامن سے مگر کترا گئی
ہم کو ترک آرزو کا آج یہ حاصل ملا
آرزو کا نام لے کر آرزو شرما گئی
بج اٹھا ساز طرب اور جل اٹھے دل کے چراغ
اتفاقاً بھی اگر ان سے نظر ٹکرا گئی
بن گئی وجہ فروغ انجمن شمع حیات
زندگی تھی آپ کی اور آپ کے کام آ گئی
اس نگاہ ملتفت کا مجھ سے پھرنا تھا جلیلؔ
آرزوؤں کے گلستاں میں خزاں سی چھا گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.