چلا رہی ہیں جس پہ زبانیں لہو لگی
چلا رہی ہیں جس پہ زبانیں لہو لگی
یہ وہ صدا تھی جو مجھے بار گلو لگی
کیا کیا نہ مس کیا تجھے میں نے فراق میں
لیکن تری کمی جو ترے روبرو لگی
میں تب قرار دوں گا تجھے اپنا ہم سخن
جب میری خامشی بھی تجھے گفتگو لگی
اب گھر کے رہ گیا ہوں عجب ازدحام میں
ہر آرزو کی پشت سے ہے آرزو لگی
اے حسرت کمال کچھ اپنا خیال کر
مر ہی نہ جائے یوں مرے سینے سے تو لگی
بدنام ہو گئے ہیں جسے لکھ کے آج ہم
کل دیکھئے گا فلم یہی کو بہ کو لگی
برداشت کا عذاب مری خامشی سے پوچھ
توپیں صداؤں کی ہیں مرے چار سو لگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.