چوٹ پھولوں کی چھڑی سے بھی نہ کیوں دل پر لگے
چوٹ پھولوں کی چھڑی سے بھی نہ کیوں دل پر لگے
شہر میں ہر آدمی جب درد کا پیکر لگے
کار گاہ زندگی گویا ہے دشت کربلا
راستے میں جس طرف بھی جائیے ٹھوکر لگے
اس دیار روشنی نے یوں کیا ہے خیرہ چشم
زندگی جیسے یہاں شب سے بھی تیرہ تر لگے
راستے ویران چہرے فق لبوں پر خامشی
دوستو یہ شہر بھی اب مجھ کو اپنا گھر لگے
وقت کا بے رحم سورج کیوں نہ ہو زہرہ گداز
صبح کی ٹھنڈی ہوا بھی جب مجھے خنجر لگے
منزلیں ایسی بھی آئی ہیں سفر میں ذات کے
پھول بھی زیر قدم آئے تو وہ پتھر لگے
زخم تنہائی کا شبلیؔ تھا نہ کچھ کم جاں گداز
اور اس پر یہ ہوا کہ پے بہ پے نشتر لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.