چنے ہیں برسوں دیار فکر و نظر سے شیشے
چنے ہیں برسوں دیار فکر و نظر سے شیشے
لپٹ گئے ہیں خیال کے بام و در سے شیشے
وہ بے خبر ہے کہ اس کی دہلیز تپ رہی ہے
پگھل رہے ہیں تمازت سنگ در سے شیشے
کسی کی آنکھوں میں اب بھی احساس تشنگی ہے
چھلک رہے ہیں کسی کے عکس نظر سے شیشے
سنا ہے اب اس کے پاس پتھر نہیں بچے ہیں
نکل ہی آئیں گے کچھ نہ کچھ میرے گھر سے شیشے
غزل کا کندن سا روپ فن کی اساس چاہے
چٹخ رہے ہیں جراحت بے ہنر سے شیشے
لہو لہو انگلیوں میں لرزہ نہیں ہے نقویؔ
لرز رہے ہیں فگار ہاتھوں کے ڈر سے شیشے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.