چپکے چپکے درد و غم کا سلسلہ رہنے دیا
چپکے چپکے درد و غم کا سلسلہ رہنے دیا
میں نے اپنی چاہتوں کو بے صدا رہنے دیا
کیا تماشائے ستم صیاد نے برپا کیا
ڈال کر مجھ کو قفس میں در کھلا رہنے دیا
قربتیں مجھ سے رہیں اور دل سے رکھا دور بھی
ساتھ رہ کر بھی انہوں نے فاصلہ رہنے دیا
کارواں چلتا رہا لیکن گرا جو ضعف سے
راستے میں جیسے اک پتھر پڑا رہنے دیا
اب توقع ہی نہیں وہ غیر ہیں تو غیر ہیں
بس یہی کچھ سوچ کر ہم نے گلہ رہنے دیا
فیصلے ان کے رہے اور جیت بھی ان کی رہی
مجھ کو تو ہر حال میں بے دست و پا رہنے دیا
چل رہی ہے زندگی یہ دوڑ ہے وہ دوڑ ہے
اس طرح کچھ پا لیا جو کھو گیا رہنے دیا
تھا پری پیکر کو اپنے حسن پر اتنا غرور
جان بلبل سے بھی اس نے فاصلہ رہنے دیا
اب کہاں ڈھونڈو گے برہمؔ چاہتیں اور قربتیں
تم نے خود ہی شہر کو نا آشنا رہنے دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.