چرا لایا ہوں خود کو اپنا سایہ چھوڑ آیا ہوں
چرا لایا ہوں خود کو اپنا سایہ چھوڑ آیا ہوں
میں اس کے آئنے میں اپنا چہرہ چھوڑ آیا ہوں
اب آنکھوں میں بسا لے یا سپرد آب کر ڈالے
میں اس کی ڈایری میں ایک سپنا چھوڑ آیا ہوں
اب آگے دیکھنا ہے زندگی کیا شکل دیتی ہے
میں چلتے چاک پر خود کو ادھورا چھوڑ آیا ہوں
تو میرا حق نہ دے محنت کے بدلے بھیک ہی دے دے
میں اپنے گھر میں سب بچوں کو بھوکا چھوڑ آیا ہوں
اسے ڈر ہے کہ یوں میری انا نہ ساتھ مر جائے
میں اپنے آخری دشمن کو زندہ چھوڑ آیا ہوں
مرے بچوں کو آپس میں یہی تو بانٹنا ہوگا
پس پردہ جو نفرت کا اثاثہ چھوڑ آیا ہوں
یہ لغزش ہو گئی کل میکدے سے بے خیالی میں
کسی کا غم اٹھا لایا ہوں اپنا چھوڑ آیا ہوں
اٹھا لاتا تو بخشش کا وسیلہ بن گیا ہوتا
میں مسجد میں جو اظہرؔ ایک سجدہ چھوڑ آیا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.