دائمی درد کی کہانی ہے
دائمی درد کی کہانی ہے
کیسی بے درد زندگانی ہے
جب سے شہر صنم سے نکلے ہیں
صرف اور صرف لا مکانی ہے
میں ابھی تک وہی دوانہ ہوں
کیفیت بھی وہی پرانی ہے
کیا نہ حاصل ہوا ہمیں پھر بھی
کیوں یہ احساس رائگانی ہے
عشق ہوتا اگر لہو ہوتا
پر تری آنکھ میں تو پانی ہے
آ کے خوابوں میں لوٹ جاتے ہو
وصل کیسا یہ خوش گمانی ہے
پھر بچھڑنا بھی ہے تمہیں مجھ سے
مجھ کو آواز بھی لگانی ہے
رک بھی جائے تو غم نہیں ہوگا
اب یہ دھڑکن کسے سنانی ہے
کوئی مذہب نہیں ہے خطرے میں
سب سیاست کی لن ترانی ہے
کیا ہے افرنگؔ حیثیت اپنی
بسکہ یاروں کی قدردانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.