دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا
دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا
رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا
شاید کباب کر کر کھایا کبوتر ان نے
نامہ اڑا پھرے ہے اس کی گلی میں پر سا
وحشی مزاج از بس مانوس بادیہ ہیں
ان کے جنوں میں جنگل اپنا ہوا ہے گھر سا
جس ہاتھ میں رہا کی اس کی کمر ہمیشہ
اس ہاتھ مارنے کا سر پر بندھا ہے کر سا
سب پیچ کی یہ باتیں ہیں شاعروں کی ورنہ
باریک اور نازک مو کب ہے اس کمر سا
طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا
تم واقف طریق بے طاقتی نہیں ہو
یاں راہ دو قدم ہے اب دور کا سفر سا
کچھ بھی معاش ہے یہ کی ان نے ایک چشمک
جب مدتوں ہمارا جی دیکھنے کو ترسا
ٹک ترک عشق کریے لاغر بہت ہوئے ہم
آدھا نہیں رہا ہے اب جسم رنج فرسا
واعظ کو یہ جلن ہے شاید کہ فربہی سے
رہتا ہے حوض ہی میں اکثر پڑا مگر سا
انداز سے ہے پیدا سب کچھ خبر ہے اس کو
گو میرؔ بے سر و پا ظاہر ہے بے خبر سا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.