داستاں دل کی کبھی ہم سے سنائی نہ گئی
داستاں دل کی کبھی ہم سے سنائی نہ گئی
آگ اشکوں سے کبھی دل کی بجھائی نہ گئی
ہم نے چاہا تو بہت ان کو بھلا دیں لیکن
یاد ان کی کبھی اس دل سے بھلائی نہ گئی
غم جاناں بھی تھا درپیش غم دوراں بھی
کشتیٔ جاں یہ کنارے پہ لگائی نہ گئی
زخم اک اور دیا آپ نے جاتے جاتے
بات یوں بگڑی کہ پھر بات بنائی نہ گئی
وقت نے ایک ہی لمحے میں اسے توڑ دیا
ایک دیوار جو دونوں سے گرائی نہ گئی
لوگ بھر لیتے ہیں دامن میں مسرت کیسے
ہم سے تو درد کی دولت بھی کمائی نہ گئی
منتقل کیسے وہ کر پائے گی ورثہ آگے
گر نئی نسل کو تہذیب سکھائی نہ گئی
کیسے مل پائیں گے ہم اہل قلم سے عذراؔ
ہم سے گر بزم سخن آج سجائی نہ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.