داستان فطرت ہے ظرف کی کہانی ہے
داستان فطرت ہے ظرف کی کہانی ہے
جتنا اتھلا دریا ہے اتنا تیز پانی ہے
جن لبوں نے سینچا ہے تشنگی کے خاروں کو
اب انہیں کے حصے میں جام کامرانی ہے
پھر سے کھلنے والا ہے کوئی تازہ گل شاید
باغباں کی پھر ہم پر خاصی مہربانی ہے
عقل کب سے بھٹکے ہے نفرتوں کی وادی میں
پیار کی مگر اب بھی دل پہ حکمرانی ہے
زخم کھاتے رہتے ہیں مسکراتے رہتے ہیں
ہم وفا شناسوں کی یہ ادا پرانی ہے
برف بن گئے ارماں منجمد ہوئے جذبے
زیست کے سمندر میں کتنا سرد پانی ہے
اپنے سائے سے ہم خود اے حیات ڈرتے ہیں
مصلحت کی دنیا میں کتنی بد گمانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.