داستان گردش ایام لکھتا جاؤں گا
داستان گردش ایام لکھتا جاؤں گا
میں مؤرخ ہوں ترا انجام لکھتا جاؤں گا
رہ نہ جائے سونا سونا تیری ہستی کا ورق
خوبصورت سا کوئی الزام لکھتا جاؤں گا
اس صدی نے جس قدر رنج و غم بخشے مجھے
بس اسی کی داستاں ہر گام لکھتا جاؤں گا
رنگ برنگی تتلیوں اور جگنوؤں کے واسطے
دکھ اچھوتے کچھ نرالے کام لکھتا جاؤں گا
ہر جگہ پھیلائی ہے میں نے قلم کی روشنی
جس طرف جاؤں گا اک پیغام لکھتا جاؤں گا
کیوں عذاب جاں اسے دنیا سمجھتی ہے عدیمؔ
زخم گہرے ہی سہی انعام لکھتا جاؤں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.