داستاں جو بہت پرانی ہے
داستاں جو بہت پرانی ہے
وہ کسی کو نہیں سنانی ہے
موت سے کوئی بچ نہیں سکتا
موت تو ہر کسی کو آنی ہے
اک دیا پھر ہوا میں رکھ کے آج
اپنی تقدیر آزمانی ہے
باہر آنا ہے ڈوب کر مجھ کو
سر سے اونچا اگرچہ پانی ہے
جس کو دیکھا تھا میں نے مقتل میں
شکل انجانی بھی ہے جانی ہے
دل ہے اشعار پر فدا تیرے
تیری غزلوں میں کیا روانی ہے
بات مانوں گا یہ کہا تھا کل
تم نے احمدؔ مگر نہ مانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.