داستاں کے رخ نما ابواب چوری ہو گئے
داستاں کے رخ نما ابواب چوری ہو گئے
لٹ گئے اوقاف سب اعراب چوری ہو گئے
بے غرض جاں نذر کرنے کی روایت پٹ چکی
عشق کے دربار کے آداب چوری ہو گئے
تھے گرہ میں کچھ نتیجے کچھ ادھورے تجربے
علتیں غارت ہوئیں اسباب چوری ہو گئے
بھاپ بن کر اڑ گئے یا ہو گئے گم ریت میں
بند باندھے رہ گئے دریاب چوری ہو گئے
کرنی بھرنی اک طرف کیسا حساب و احتساب
سارے انکار اور سب ایجاب چوری ہو گئے
ہم عناں کے ذہنی اضمحلال کا کیا پوچھنا
میرے اپنے آہنی اعصاب چوری ہو گئے
مرحلہ خود آشنائی کا ابھی آیا نہ تھا
نام یاسرؔ مٹ گئے القاب چوری ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.