دعوئ دید کیا جب کسی شیدائی نے
دعوئ دید کیا جب کسی شیدائی نے
چار سو آگ چھڑک دی تری رعنائی نے
لاکھ دھوکے دئے رنگینی و رعنائی نے
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ترے شیدائی نے
ان مریضان محبت کی دوا ہے نہ دعا
کر دیا جن پہ کرم تیری مسیحائی نے
ڈوب کر دل نے کیا غرق سفینہ آخر
بحر الفت میں ڈبویا نہیں گہرائی نے
نقش پا ان کا مگر سر کو میسر نہ ہوا
در بہ در خوار کیا ذوق جبیں سائی نے
سنگ ہیں گہر گہر جن کی ضیا بخشی سے
بزم ہستی میں کچھ ایسے بھی تو ہیں آئینے
ہم نے دیکھا تو زمانے کی نظر اس پہ اٹھی
بھر دیا رنگ تماشے میں تماشائی نے
دیکھنے ہی نہ دیا ان کو رشیؔ محفل میں
کچھ تحیر نے کچھ اندیشۂ رسوائی نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.