دعویٰ ہے آزمائیے چاہے جہاں مجھے
دعویٰ ہے آزمائیے چاہے جہاں مجھے
ہوں با وفا قبول ہے ہر امتحاں مجھے
فرسودہ اہل عشق کے افسانے ہو گئے
لکھنی ہے طرز نو سے مری داستاں مجھے
زاہد نے ذکر خلد میں کی تھی نشاں دہی
معلوم میکدہ تھا نہ کوئے بتاں مجھے
ہر رہ گزر پہ چھوڑے ہیں کچھ ایسے نقش پا
کہ ڈھونڈھتا رہے گا ہر اک کارواں مجھے
اس منزل حیات میں ہے اب جنوں مرا
خواہش ہے سود کی نہ تو خوف زیاں مجھے
ان کی جفا پہ کوئی انہیں ٹوکتا نہیں
تلقین صبر کرتا ہے سارا جہاں مجھے
رونقؔ زمانہ کچھ بھی کہے اس کا غم نہیں
وہ بد گماں ہیں مجھ سے نہیں یہ گماں مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.