دبا پڑا ہے کہیں دشت میں خزانہ مرا
دبا پڑا ہے کہیں دشت میں خزانہ مرا
تو کس تلاش میں ہے شہر میں دوانہ مرا
تمام رات ہے آنکھوں سے آنسوؤں کی کشید
تمام رات کھلا ہے شراب خانہ مرا
یہ میری روح کا جھگڑا تھا آسماں کے ساتھ
بلا قصور بدن بن گیا نشانہ مرا
فلک کے سر پہ پڑے ہیں میری زمین کے پاؤں
مرے سرہانے سے اونچا ہے پائتانہ مرا
میں ایک زخم برابر زمیں پہ رہتا ہوں
وہ کہہ رہے ہیں یہ قبضہ ہے غاصبانہ مرا
تو آؤ اہل جہاں اس پہ فیصلہ کر لیں
مکان سارا تمہارا درون خانہ مرا
خود اپنے آپ میں ہے ساری میری آمد و رفت
کہیں سے آنا نہ اب ہے کہیں بھی جانا مرا
کہاں کا عشق ہوس تک بھی ہو نہیں سکتی
یہی رہے گا جو انداز مجرمانہ مرا
بکھیرنی ہے جسے زلف اس کا استقبال
وبال شہر سے خالی ہے ایک شانہ مرا
میں خوب فاقہ نہ کرتا تو مر گیا ہوتا
مرے خلاف صف آرا تھا آب و دانہ مرا
کبھی خدا کبھی انسان راہ میں حائل
خود اپنے آپ سے رشتہ بھی غائبانہ مرا
کہیں مرے کسی لمحے سے پھر ہوئی کوئی چوک
پھر آتے آتے کہیں رہ گیا زمانہ مرا
ترے غیاب کی خدمت میں سارا میرا قصور
وجود پھر بھی وہی غیر حاضرانہ مرا
وہ میرے لفظ کے دونوں سروں سے واقف ہے
کبھی بھی کام نہ آیا کوئی بہانہ مرا
- کتاب : محبت کرکے دیکھو نہ (Pg. 43)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.