دبی آواز میں کرتی تھی کل شکوے زمیں مجھ سے
دبی آواز میں کرتی تھی کل شکوے زمیں مجھ سے
کہ ظلم و جور کا یہ بوجھ اٹھ سکتا نہیں مجھ سے
اگر یہ کشمکش باقی رہی جہل و تمدن کی
زمانہ چھین لے گا دولت علم و یقیں مجھ سے
تمہیں سے کیا چھپانا ہے تمہاری ہی تو باتیں ہیں
جو کہتی ہے تمنا کی نگاہ واپسیں مجھ سے
نگاہیں چار ہوتے ہی بھلا کیا حشر اٹھ جاتا
یقیناً اس سے پہلے بھی ملے ہیں وہ کہیں مجھ سے
دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے
یہ مانا ذرہ آوارۂ دشت وفا ہوں میں
نبھانا ہی پڑے گا تجھ کو دنیائے حسیں مجھ سے
سر منزل پہنچ کر آج یہ محسوس ہوتا ہے
کہ لاکھوں لغزشیں ہر گام پر ہوتی رہیں مجھ سے
ادھر ساری تمناؤں کا مرکز آستاں ان کا
ادھر برہم تمنا پر مری سرکش جبیں مجھ سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.