دم بھر بھی جو ہو جائے ملاقات بہت ہے
دم بھر بھی جو ہو جائے ملاقات بہت ہے
دو باتیں بھی وہ کر لیں تو یہ بات بہت ہے
لطف آج کل آتا ہے سوا بادہ کشی کا
مطبوع مجھے اس لئے برسات بہت ہے
دن بھر تو جدائی میں تڑپتے ہوئے گزرا
جاتے ہو کہاں ٹھہرو ابھی رات بہت ہے
کیوں بو الہوسوں میں وہ مجھے گنتے ہیں یا رب
عشق اور ہوس میں تو منافات بہت ہے
دو گھونٹ بھی ہے غم کے غلط کرنے کو کافی
تھوڑی سی بھی ساقی کی مدارات بہت ہے
اے دل انہیں ڈر ہے کہیں بدنام نہ ہو جائیں
یہ چوری چھپے کی بھی ملاقات بہت ہے
ناصح تری بک بک سے تو سر پھر گیا اپنا
مہمل یہ بہت ہے یہ خرابات بہت ہے
روشن ہوئے چودہ طبق اک جام سے تیرے
احسان تیرا پیر خرابات بہت ہے
دل لے کے مرا جی وہ بڑھاتے ہیں یہ کہہ کر
ہو دل سے تو تھوڑی سی بھی سوغات بہت ہے
مجھ مست کو کیا سلطنت جم کی تمنا
خدمت تری اے پیر خرابات بہت ہے
رہتا ہے خیالؔ آپ کا ہر وقت ثنا خواں
ایمان کی ہے بات خوش اوقات بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.